Monday, 13 January 2014

اک شام کہیں آباد تو ہو


ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
اس جھیل کنارے پل دوپل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کہیں ہم شام ڈھلے
اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں ان آنکھوں میں
اس بسرے پل کی یاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو

پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے
اس جھل کنارے پل دو پل
وہ روپ نگر آباد تو ہو
دن رات کے اس آئنیے سے
وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو

No comments:

Post a Comment

Labels